یہ عشق سمندر رنگوں کا میں لہروں لہروں ڈوب چلی
رنگوں نے بازی خوب چلی اک لہر سمندر پار گئی
مجھے ہجر کی سلگن مار گئی اب جل بھی آگ دکھائی دے
اس سلگن میں ہی جل جاؤں کسی طرح رہائی دے
اک صبر کا ورطہ آن پڑا جو توڑوں تو نقصان بڑا
یہ عشق سمندر کا محور ہر لہر اسی سے پھوٹی ہے
ہر خواہش کا دھاگہ چھوٹا تب حرص کی مالا ٹوٹی ہے
اب دنیا مجھ کو تھامے ہے پر دنیا کی نہیں چاہ مجھے
اس عشق سمندر بہہ جاؤں اب باقی ہے یہی راہ مجھے
اک رنگ ہے باقی شکرکا بس وہ رنگ چڑھے میں پار لگوں
اس پار ملوں جب یار سے میں تب قرب کا عالم کیا ہو گا
ایسے میں اگر موت آ جائے
تو موت کا عالم کیا ہو گا